Add To collaction

لیکھنی ناول -20-Oct-2023

تُو عشق میرا از قلم عائشہ جبین قسط نمبر12

ان لوگوں کو یہا ں آۓ ہوۓ پانچواں دن تھا انہوں نے یہاں کی ہر مشہور جگہ تقریباً گھوم لی تھی آج ان کا ارادہ جھیل سیف الموک جانے کا تھا وہ سب بہت پر جوش تھے ہادیہ بات سنو میری سحرش نے گاڑی میں سامان رکھتی ہادیہ کو آواز دی ہہممم بولو کیا ہوا وہ مصروف سی بولی تم نے دیکھا ہے یہ صدف کل سے علی کے ساتھ کچھ زیادہ ہی فری ہونے کی کوشش کررہی ہے جب دیکھو جہاں تک ہوتا ہے علی سے چپکنے کی کوشش میں ہے تم ذرا خیال کرو آنکھ رکھو اس جل پری پر وہ رازدانہ انداز میں بولی وہم ہے تمھارا ایسا کچھ بھی نہیں وہ بس کزن ہے اس کی اور اس سے زیادہ کچھ بھی نہیں ہے تم خوامخواہ پریشان ہورہی ہو کزن تو تم بھی ہو اس وہ ہادیہ کو کندھا مار کر بولی جی میں اس کی کزن ہوں دوست ہو اور وہ بولتے بولتے خاموش ہوگی اور کیا ہو بتاو ذرا مجھے بھی کیا چھپا رہی ہو تم ہم سے وہ شریر لہجے میں بولی دفع ہو جاو یہاں سے مت تنگ کرو مجھے کر تو ایسے رہی ہو جیسےکچھ جانتی نہیں ہو
چلوجلدی یہ رکھو دیر ہورہی ہے وہ بولی تو اس کے گال سرخ ہوگے ارے دیکھو ہادیہ تو بلش بھی کرتی ہے وہ اونچا اونچا بولنےلگی او پاگل لڑکی چپ کرو کیوں کررہی ہو ایسے کسی پتا چل گیا تو وہ گھبرا کر بولٕی تو کیا ہوا پتا چلتا ہے تو چل جاۓ بلکہ اچھا ہے میں تو سوچ رہی ہو جاکر علی کو بتا دو ں سحرش چہک کر بولی خبردار تم نے کسی کو کچھ بولا تو مجھے سے برا کوٸی نہ ہوگا جب وقت ہوگا میں علی کو خود بتا دوں گی ابھی تم خاموش رہوگی پلیز اور تم کب بتاوگی ان شاء اللہ بہت جلدی وہ گہرا سانس لے کر بولی میں دعا کروں گی یہ خیر کا وقت جلدی سے آۓ جب تم اور علی ہمیشہ کے لیے ایک ہو جاو آمین سحرش بڑےجذبے سے بولی آمین ہادیہ نے شرمیلی سی مسکان سے کہا تو وہ دونوں ایک دم سے زور سے ہنسی اور جلدی جلدی سامان رکھنے لگی ہاں بھی کوٸی کام ہے تو بتاو مجھے علی( بلیو پینٹ سفیدشرٹ پر برٶان جیکٹ پہنے بہت ہی ہینڈسم لگ ریاتھا ) وہ ان کٕے پاس آکر بولا نہیں کوٸی کام نہیں ہم نے سب کرلیا ہے سحرش نے اس کو جواب دیا ہادیہ نے علی کو دیکھ کر نظر جھکالی تھی اور دل میں اس کو نظر بد سے بچانے کے لیے قراآنی آیات کا ورد کرہی تھی وہ نہیں جانتی تھی کسی کی کالی نظر پہلے سے ان دونوں پر گھڑ چکی تھی


وہ اب جھیل کے لیے نکل گے تھے علی ہمیشہ کی طرح ہادیہ کے ساتھ بیٹھا تھا وہاں کے خوبصورت اور دلنشین نظارے سب کو اپنے حصار میں جکڑ چکے تھے وہ کے ماحول اور اپنی دل کی کیفیت اور علی کے ساتھ ہونے کی وجہ سے ہادیہ کو اپنا آپ ہوا میں اڑتا ہوا محسوس ہورہا تھا کافی دشوار سفر کے بعد باآخر وہ لوگ جھیل آگے تھے یہ جھیل بہت خوبصورت اور خداٸی حُسن سے مالامال تھی اس کا حُسن دیکھنے والے کی آنکھ کو خیرہ کرد رہا تھا وہ سب بلکل خاموشی سے اس کاحُسن محسوس کررہے تھے واہ بیوٹی فل کیا بات ہے علی سحر زدہ سا بولا تو ہادیہ اور علی نے اخیتار ایک ساتھ ایک دوسرےکو دیکھا
تو علی نےگہری اور میٹھی نظروں سے ہادیہ کو دیکھا تو ہادیہ نے نظریں جھکا لی تو علی بھی سسٹپٹا کر اِدھر اُدھر دیکھنے لگا
صدف نے ان کودیکھ کر بامشکل اپنے دل کی جلن پر قابو رکھ رہی تھی
حیدر اور سحرش نے ان دونوں دیکھ کر ان کے ہمیشہ ساتھ اور خوش رہنے کی دعا کی اور ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکراۓ ان لوگوں نے وہاں باربی کیو کیا اور جھیل کے کنارے بہت ساری پکس بناٸی بہت اچھے سے انجٶاے کیا اہک خوبصورت دن کا بہترین انجام ہوا تھا وہ سب بہت خوش تھے سواۓ صدف جسکے دل میں جلن اور حسد کی آگ بھرپور آب وتاب سے جل رہی تھی دن کا اجلا اب شام کی سرخی میں تبدیل ہورہاتھا جن انہوں نے واپسی کے لیے اپنے سفر کا آغاز کیا
وہ لوگ بہت تھکے ہوۓ تھے جلدی سوگے کیونکہ صبح ان کو واپسی کا سفر بھی کرنا تھا ایک نٸی صبح طلوع ہوگی تھی اب وہ لوگ ایک بار پھر سفر میں تھے اس سفر میں ہر ایک کی دل کی کیفیت چینج ہوگی تھی کوٸی بتا نہیں پا رہا تھا کوٸی چھپا نہیں تھا اور کوٸی سمجھ نہیں سکا رہا تھا کہ کب اس کے دل کی دنیا تبدیل ہوگی تھی جس کو وہ اپنی دوست سمجھتا ہے وہ اس کے لیے اب وہ دوست سٕے زیادہ تھی ضرورت تھی تو سمجھنے کی مگر یہ سب وہ سمجھ نہیں سکا رہا تھا تو اس کا کریڈٹ صدف کو جاتا تھا اس نے علی کے گرد ایسا جال بُنا تھا جس سے وہ نکل ہی نہیں سکتا تھا جب تک وہ اپنے دل کی کیفیت سے انجان تھا تب تک کچھ نہیں ہوسکتا تھا جو فی احال ممکن نہیں تھا ❤🌹💔💗 وہ کب سے یونہی بیٹھی تھی جب علی ڈریسنگ روم سے باہر آیا وہ اس کو دیکھ کر ایک دم سے کھڑی ہوٸی اور اس کے قریب گی تم ٹھیک ہو علی کیا ہوگیا ہے تمھیں ایسے کیوں کررہے ہو پہلے تو تم ایسے نہیں تھے ہماری کتنی اچھی دوستی تھی ہم کتنا ایک دوسرے کا خیال کرتےتھے کتنی فکر تھی ہم دونوں کو ایک دوسرے کی وہ اب کیا ہوا کیوں بدل گے ہو تم وہ نم لہجے میں بولی علی نے اس کو آہستہ سےتھاما اور اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولا
میں یہی کہتا تھا تم سے ہم اچھے دوست ہیں مت کرو یہ شادی مگر تم نے میری ایک نہیں سنی میری بات کو مذاق سمجھا اپنی مرضی کی اب کٕیوں گلہ ہے تمھیں میرا یہ رویہ تمھاری عطا ہے تو اب یہ تمھاری سزا ہے اگر اس کمرے کی کوٸی بات اب باہر گی تو مجھ سے برا کوٸی نہیں ہوگا
یہ جو تم نجف بھاٸی اور مریم آپی کے کان میرے خلاف بھر رہی ہو ختم کردو یہ سلسہ ورنہ میں کیا کرسکتا ہوں یہ تم سوچ بھی نہیں سکتی اب یہاں رہنا ہےتو میرے اصولوں کے مطابق رہنا ہوگا آٸی سمجھ میں نے نجف بھاٸی اور مریم آپی کو کچھ بھی نہیں بتایا آپ تو بس وہ با شششششششش وہ بولنے لگی تو اس نے اس کے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر خاموش کرایا اب سے جو میں اور جتنا میں بولو گا اتنا اور وہ بولو گی تم ایک لفظ زیادہ نہ کم اب سے تمھارا سوناجاگنا کھانا پینا سب میری مرضی کا ہوگا یہاں تک تم اب سے کپڑے بھی میری مرضی کے پہنو گی
تمھیں بھی تو پتا چلے کہ تمھاری شادی کس سے ہوٸی ہے وہ تپے ہوۓ انداز میں بولا ٹھیک ہے جسا تم بولے گے میں ویسا کرو گی بس تم اب ایسے مت کرنا جو تمھارا رویہ ہے وہ خوشی خوشی بولی تم چاہو یانا چاہو یہ کرنا ہوگا تمھیں اس میں تمھارا اپنا فاٸدہ ہے کیوں کہ شادی تمھاری مرضی تھی اور اب تم میری مرضی سے چلو گی ذہین نیشن کرو سب مجھے دوبارہ نہ کہنا پڑے وہ بول کر روم سے باہر جانے لگا تو ہادیہ نے اس کاہاتھ پکڑ روکا اب کہاں جارہے اور کب تک آو گے وہ نرم لہجے میں بولی وہ اس کو سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگا اور پھر مسکایا اور اس سے ہاتھ چھڑایا نرمی سے اس کاگال چھوا اور بولا ہادیہ علی شاہ
یہ تمھارا سردرد نہیں ہے میں کہاں اور کب جاتا ہوں اور کب آتا ہوں یہ تمھارا حق نہیں ہے کہ تم سوال کرو مجھے سے تو نیکسٹ ٹاٸم بی کٸیر فل وہ بول کر روم سے چلا گیا وہ اور تو کچھ بھی نہیں سمجھ سکی سواۓ ہادیہ علی شاہ کے پہلی بار علی نے اپنا نام اس کے نام سے جوڑا تھا اور وہ اس میں ہی خوش ہوگی تھی دیوانی

   0
0 Comments